:کوئٹہ
بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر بلوچستان مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 منظور کر لیا ہے، جو ایک متنازعہ قانون قرار دیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت معدنی وسائل کے اہم اختیارات صوبائی حکومت سے وفاقی حکومت کو منتقل کر دیے گئے ہیں، جس پر صوبے بھر میں شدید تنقید اور صوبائی خودمختاری کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
یہ بل صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے رمضان کے خصوصی اجلاس میں پیش کیا، جو چار گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ اجلاس میں نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماء اسلام (ف)، اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مائن اونرز نے شرکت کی۔
اگرچہ بل متفقہ طور پر منظور ہوا، تاہم اب اسے انہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے جنہوں نے ابتدائی طور پر اس کی حمایت کی تھی، جن میں جمعیت علماء اسلام (ف)، نیشنل پارٹی، اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) شامل ہیں۔
اپوزیشن کا مؤقف: بل اٹھارویں ترمیم کے خلاف ہے
مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون اٹھارویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہے، جو معدنی وسائل کو صوبائی دائرہ اختیار میں رکھتا ہے، جبکہ وفاق کو صرف مشاورتی کردار دیا گیا ہے۔
مقامی سرمایہ کاروں کے لیے مشکلات
تنقید کرنے والوں نے نئے مالیاتی تقاضوں پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں معدنیات کی تلاش کے لیے بینک گارنٹی 40 ہزار روپے تھی، لیکن نئے قانون کے تحت یہ رقم 1 کروڑ سے 2 کروڑ روپے تک کر دی گئی ہے، جس سے مقامی سرمایہ کار باہر ہو سکتے ہیں جبکہ بڑی کارپوریشنز کو فائدہ پہنچے گا۔
مقامی روزگار اور سماجی ذمہ داری کے نکات شامل نہیں
بل میں مقامی ملازمتوں، سڑکیں و اسکول بنانے جیسے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) منصوبوں، اور رائلٹی کی شفاف تقسیم کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کو قدرتی وسائل کی نگرانی میں شامل کرنا بھی مقامی حلقوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
ماہرین اور مقامی رہنماؤں کے خدشات
ماہرین اور مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر اس قانون پر مؤثر نگرانی اور مقامی شراکت کے بغیر عمل درآمد کیا گیا تو یہ بلوچستان میں معاشی ناہمواری کو مزید بڑھا سکتا ہے اور عوام کو بااختیار بنانے کی بجائے مزید محرومی کا باعث بنے گا۔
جوں جوں بلوچستان مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 کے نفاذ کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس میں ترمیم کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں تاکہ صوبائی حقوق، مقامی ترقی، اور معاشی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔