اداریہ
بلوچستان حکومت مالی سال 2025-26 کے لیے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے، اور یہ وقت اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینے کے لیے نہایت موزوں ہے جو ہماری زندگیوں سے براہ راست جڑا ہوا ہے: ماحولیاتی تبدیلی۔
کوئٹہ سے چاغی اور لورالائی سے گوادر تک، بلوچستان کے ہر علاقے کو قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی شدید لہروں کا سامنا ہے۔ ایسے میں حکومت پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر ایک جامع اور مؤثر شجرکاری مہم کا آغاز کرے، جسے ہم “ملین ٹری سونامی” کا نام دیتے ہیں — اور اگر ممکن ہو تو بلین ٹری سونامی۔
درخت صرف فطری حسن نہیں بڑھاتے، بلکہ وہ ہوا صاف کرتے ہیں، گرمی کم کرتے ہیں، پانی محفوظ کرتے ہیں، اور زمین کو قدرتی آفات سے بچاتے ہیں۔ یہ مہم پہلے مرحلے میں بلوچستان کے تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں شروع کی جائے۔
پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اور بلوچستان چونکہ ملک کے نصف رقبے پر محیط ہے، اس لیے اس پر توجہ نہ دینا ایک سنگین غفلت ہوگی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئٹہ کی فضائی کوالٹی اس وقت پورے پاکستان میں سب سے بہتر ہے — مگر یہ حکومت یا کسی ادارے کی پالیسی کی وجہ سے نہیں، بلکہ قدرتی جغرافیے کی بدولت ہے۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہم کب تک قدرت پر انحصار کریں گے؟ ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہوگا۔
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک ماحولیاتی ماہرین پر مشتمل “کلائمیٹ چینج ٹاسک فورس” قائم کی جائے، جو اس شجرکاری مہم کی نگرانی کرے۔ مزید یہ کہ ان محکموں کے فنڈز، جہاں کرپشن عام ہے اور ترقیاتی کام محض کاغذوں تک محدود ہوتے ہیں، ان فنڈز کو اس اہم مقصد کی طرف منتقل کیا جائے۔
ہر سال اربوں روپے ایسی سڑکوں اور پشتوں پر خرچ کیے جاتے ہیں جو بارش کے ایک موسم میں بہہ جاتی ہیں۔ اگر یہی پیسہ درختوں پر لگایا جائے تو نہ صرف ماحول بہتر ہوگا بلکہ قدرتی آفات سے تحفظ بھی ملے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں کمی کر کے ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کو سرفہرست رکھے۔ کیونکہ آج اگر ہم درخت لگائیں گے، تو کل ہماری نسلیں سانس لے سکیں گی۔
درخت زندگی ہیں، آئیں بلوچستان کو سرسبز بنائیں۔