خرطوم: سوڈان میں جاری خانہ جنگی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اب تک 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے، جس کے حل کے لیے فوری عالمی مداخلت ناگزیر ہے۔

سوڈان خانہ جنگی کا پس منظر
سوڈان میں یہ خانہ جنگی 14 اپریل 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب سوڈان کی فوج (ایس اے ایف ) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان اقتدار کی کشمکش شدت اختیار کر گئی۔ یہ تنازعہ دراصل ریپڈ سپورٹ فورسز کو قومی فوج میں ضم کرنے کے معاملے پر شروع ہوا، جو ملک کے سول حکومت کے قیام کے عمل کا اہم حصہ تھا۔
اس جنگ میں جنرل عبدالفتح البرہان (سوڈانی فوج کے سربراہ) اور ان کے سابق نائب محمد حمدان دگالو (حمِدتی)، جو ریپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر ہیں، ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ دونوں رہنما ایک دوسرے پر جنگ شروع کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور اب تک کسی امن معاہدے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
انسانی بحران کی شدت
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور دارفور کے علاقوں میں شدید بمباری، لوٹ مار، قتل و غارت اور نقل مکانی کے واقعات روزانہ بڑھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر ) اور عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق ملک میں خوراک، صاف پانی اور ادویات کی شدید کمی واقع ہو چکی ہے، جس سے لاکھوں افراد بھوک، پیاس اور بیماریوں کا شکار ہیں۔
ہزاروں بستیاں تباہ ہو چکی ہیں، اسپتال منہدم ہو گئے ہیں، اور بنیادی ڈھانچہ (انفراسٹرکچر) مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال گزشتہ کئی دہائیوں کا بدترین انسانی المیہ ہے۔
عالمی برادری سے جنگ بندی اور امداد کی اپیل
اقوامِ متحدہ ، افریقی یونین ، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) اور دیگر عالمی تنظیموں نے فوری جنگ بندی اور متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی کی اپیل کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری سفارتی اقدامات اور بین الاقوامی دباؤ نہ بڑھایا گیا تو سوڈان مکمل معاشی اور سماجی تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔
عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ سوڈان میں امن کے قیام کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کریں تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے اور ملک میں استحکام بحال ہو۔







