سٹاف رپورٹر:
کوئٹہ – 2 مئی:
بلوچستان اسمبلی کے جمعہ کے اجلاس میں اس وقت شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی جب اپوزیشن اراکین نے بلوچستان مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر شدید اعتراضات کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ بل کی کمیٹی میں جن متنازعہ شقوں کو نکالا گیا تھا، انہیں دوبارہ اصل بل میں شامل کر کے اپوزیشن کے ساتھ اعتماد شکنی کی گئی ہے۔ انہوں نے اسے پارلیمانی روایات کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
“یہ محض قانون سازی نہیں بلکہ اپوزیشن کے اعتماد کے ساتھ دھوکہ ہے،” ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت بددیانتی سے شامل کی گئی شقوں کے خلاف بھرپور احتجاج جاری رکھے گی۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رکن اسمبلی ذabit علی ریکی نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بل میں یکطرفہ ترامیم پر احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کی بات سننے کو تیار نہیں اور تمام تر فیصلے یکطرفہ طور پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر سر فراز بگٹی نے اپوزیشن کے ردعمل کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اسپیکر اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ نکالی گئی شقیں دوبارہ بل میں کیسے شامل کی گئیں، اور اس حوالے سے ایک مشترکہ کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی جو اپوزیشن کے ساتھ مل کر متنازعہ نکات کا جائزہ لے گی۔
یہ واقعہ صوبائی اسمبلی میں شفاف قانون سازی اور بلوچستان کے وسائل پر اختیار کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دے رہا ہے