چاغی ریاض بلوچ
ریکودک منصوبے کی انتظامیہ کی جانب سے دالبندین سمیت علاقائی صحافیوں کو پروجیکٹ کے دورے کی دعوت دی گئی، جس کے دوران صحافیوں نے منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی اور مقامی سطح پر درپیش مسائل کو اجاگر کیا۔
پریس کلب دالبندین کے ترجمان کے مطابق، یہ دورہ ایک خوش آئند قدم ہے، جس سے نہ صرف شفافیت کو فروغ ملا بلکہ مقامی میڈیا کو براہِ راست منصوبے کے خدوخال سمجھنے کا موقع بھی ملا۔
مقامی روزگار اور ترقیاتی خدشات
دورے کے دوران صحافیوں نے سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا کہ ریکودک منصوبے میں مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع محدود کیوں ہیں؟ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ بیشتر ٹھیکے ایسے اداروں کو دیے گئے ہیں جو نہ تو چاغی سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی بلوچستان سے۔
اس کے جواب میں انتظامیہ نے وضاحت کی کہ منصوبہ اب بھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور مستقبل قریب میں چاغی کے نوجوانوں کو بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
صحت و تعلیم پر تجاویز
صحافیوں نے انڈس ہیلتھ کمیونٹی سینٹر کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اسے مکمل ہسپتال میں تبدیل کیا جائے تاکہ کوئٹہ ریفرل کی ضرورت کم ہو جائے۔ ساتھ ہی تعلیمی میدان میں اسکالرشپس میں چاغی کے طلبہ کو ترجیح دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
انتظامیہ نے اس پر یقین دہانی کروائی کہ چاغی کے 100 طلبہ و طالبات کو آئندہ اسکالرشپ پروگرام میں شامل کیا جائے گا، تاکہ تعلیمی میدان میں مقامی نوجوانوں کو بہتر مواقع میسر آئیں۔
ٹیکنیکل ٹریننگ کی توسیع
نوکنڈی میں موجود ٹیکنیکل سینٹر کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ دالبندین میں بھی اسی طرز کا ادارہ قائم کیا جائے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہنر مند نوجوان ہی چاغی کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
دورے کی نوعیت اور شفافیت
پریس کلب کے ترجمان نے یہ واضح کیا کہ یہ دورہ کسی ایک ادارے کی دعوت یا قیادت میں نہیں ہوا بلکہ مختلف صحافیوں کو انفرادی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ دالبندین پریس کلب نے دورے کے دوران مکمل عوامی نمائندگی کرتے ہوئے وہ تمام سوالات اٹھائے جو عام شہریوں کے ذہنوں میں موجود تھے۔
طلبہ کی آواز: ’’صحافی ہماری زبان بنیں‘‘
ٹیکنیکل سینٹر میں زیرِ تعلیم نوجوانوں نے صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ نوکنڈی میں منرل یونیورسٹی، کالج اور کینسر ہسپتال جیسے اداروں کی شدید ضرورت کو اجاگر کریں۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں، اور ان کے ذریعے ہی پالیسی سازوں تک مقامی آواز پہنچ سکتی ہے۔