ادارایہ
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ مگر قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، ایک سنگین تعلیمی بحران کا شکار ہے۔ جہاں اربوں روپے سڑکوں، ڈیموں اور نالیوں کی تعمیر پر خرچ کیے جا رہے ہیں، وہاں صوبے کی سرکاری جامعات کے اساتذہ اور عملہ آج بھی کم تنخواہوں پر ہیں۔
یونیورسٹی آف بلوچستان، بیوٹمز (بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز)، اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی جیسی بڑی جامعات میں اساتذہ مسلسل تنخواہوں میں کٹوتیوں اور مراعات کی بندش پر سراپا احتجاج ہیں۔ ان اداروں میں 30 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں، لیکن انہیں تعلیم دینے والے اساتذہ خود بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
حال ہی میں محکمہ اعلیٰ تعلیم بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں اساتذہ اور انتظامیہ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں کٹوتی کر دی گئی ہے، جس کا اطلاق جونئیر ملازمین سے لے کر سینئر پروفیسرز تک سب پر ہوتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں یہ فیصلہ تعلیم کے دشمنوں جیسے اقدامات کے مترادف ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سر فراز بگٹی نے تعلیم میں میرٹ کو فروغ دینے اور کرپشن فری بھرتیوں جیسے اقدامات کیے ہیں، جو قابلِ تحسین ہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے مالی بحران کو بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لیں۔
تعلیمی ادارے صرف طلبا کو ڈگریاں نہیں دیتے، بلکہ وہ تحقیق، اختراعات اور مستقبل کی قیادت کو جنم دیتے ہیں۔ اگر اساتذہ کو مناسب مراعات نہ دی جائیں تو نہ صرف تعلیمی معیار متاثر ہوگا، بلکہ بلوچستان کی معیشت اور سماجی ترقی بھی رک جائے گی۔
نتیجہ:
ترقی صرف سڑکیں بنانے سے نہیں، ذہنوں کو تعمیر کرنے سے آتی ہے۔
اگر حکومت بلوچستان واقعی صوبے کی ترقی چاہتی ہے تو اُسے فوری طور پر سرکاری جامعات کے مالی مسائل حل کرنے ہوں گے، اساتذہ کی تنخواہیں بہتر بنانی ہوں گی، اور ایک پائیدار تعلیمی پالیسی متعارف کرنی ہوگی۔
بلوچستان کے نوجوان اگر معیاری تعلیم، تحقیق اور تربیت حاصل کریں تو وہ نہ صرف صوبے بلکہ پاکستان کے لیے قیمتی اثاثہ بن سکتے ہیں۔ اب مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اعلیٰ تعلیم کو بحران سے نکالنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔