سیّد محمد یاسین
کوئٹہ – بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء نے “آغازِ حقوق بلوچستان” اسکالرشپ پروگرام کے تحت اپنی اسکالرشپس کی اچانک اور مبینہ طور پر غیر قانونی منسوخی کی شدید مذمت کی ہے۔ طلباء کا الزام ہے کہ ایک اکاؤنٹنٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بغیر کسی قانونی کارروائی کے اسکالرشپس منسوخ کر دیں، جو اختیارات کے صریح ناجائز استعمال کی مثال ہے۔
کل 600 اسکالرشپس کو غیر قانونی طور پر منسوخ کیا گیا ہے۔
متاثرہ طلباء کے مطابق، یہ اسکالرشپس—جو مقامی اور بین الاقوامی تعلیم کے لیے مختص تھیں—بغیر کسی واضح وجہ اور اُن کی اہلیت اور ضروری دستاویزات کے باوجود منسوخ کی گئیں۔ طلباء نے اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لیے شواہد بھی پیش کیے ہیں اور اب وہ انصاف اور تعلیمی و مالی نقصان کے ازالے کے لیے سول مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
طلباء نے صدر آصف علی زرداری، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)، وفاقی وزیر تعلیم، اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سے فوری مداخلت اور آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی وہ ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کا تقاضا بھی کر رہے ہیں۔
قانونی ماہرین نے بھی طلباء کے مؤقف کی تائید کی ہے، اور واضح کیا ہے کہ اسکالرشپس کی منسوخی کا اختیار صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں کو حاصل ہے، نہ کہ اکاؤنٹنگ اسٹاف کو۔ ایک ماہر قانون نے کہا، “اکاؤنٹنٹ کو اسکالرشپ منسوخ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا؛ ایسے فیصلے متعلقہ انتظامی حکام ہی کر سکتے ہیں۔”
یہ واقعہ “آغازِ حقوق بلوچستان” پروگرام پر شفافیت اور احتساب کے حوالے سے بڑھتی ہوئی تنقید میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی میڈیا ادارے گذشتہ چند مہینوں سے HEC سے وضاحت کے لیے رابطہ کر چکے ہیں، مگر تاحال کوئی باضابطہ جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ پروگرام صوبے میں تعلیمی مواقع بڑھانے کے لیے شروع کیا گیا تھا تاکہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلباء کو سہارا دیا جا سکے۔ تاہم اسکالرشپس کی اچانک منسوخی سے کئی باصلاحیت نوجوانوں کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے-