نیوز ڈیسک
کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے پی پی ایچ آئی بلوچستان کی حالیہ بھرتیوں کو غیر شفاف اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تمام تقرریاں منسوخ کر دی ہیں۔ عدالت نے ادارے کو ہدایت دی ہے کہ وہ نیا بھرتی عمل 60 دن کے اندر مکمل کرے، جس میں تحریری امتحان اور بڑے اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت کو لازمی بنایا جائے۔
یہ فیصلہ جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس گل حسن ترین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حمیداللہ خان کی دائر کردہ آئینی درخواست پر سنایا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ڈسٹرکٹ سپورٹ منیجرز، مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن آفیسرز اور فنانس آفیسرز کی بھرتیاں بغیر تحریری امتحان کے کی گئیں، جو شفافیت کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ صرف ویب سائٹ پر اشتہار دینا آئین کے آرٹیکل 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے امیدوار محروم رہ گئے۔
عدالت نے مزید قرار دیا کہ بھرتیاں ضلعی بنیادوں پر ہونی چاہئیں، اور اگر کسی ضلع میں اہل امیدوار دستیاب نہ ہوں تو ہی اوپن میرٹ پر بھرتی کی جا سکتی ہے۔
فیصلے میں پی پی ایچ آئی کے مینوئل کی شق 9.3.3 کو بھی خلافِ ضابطہ قرار دیا گیا، جبکہ شق 9.3.2/1 & 2 کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا گیا۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے ایس اینڈ جی اے ڈی اور محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ وہ جامع بھرتی پالیسی جاری کریں، تاکہ مستقبل میں تمام محکمے بڑے اخبارات میں اشتہارات شائع کریں اور میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں عمل میں لائی جائیں۔
عدالت نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تحریری امتحان سے گریز، محدود تشہیر اور میرٹ سے انحراف آئینی خلاف ورزیاں ہیں جنہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلے میں واضح کیا گیا کہ شفافیت اور مساوی مواقع عوامی مفاد کے بنیادی اصول ہیں اور سرکاری اداروں کو ان پر ہر حال میں عملدرآمد کرنا ہوگا۔







