دریائے سندھ کے بڑھتے پانی کا خطرہ
بلوچستان ایک بار پھر ایک بڑے سیلابی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث جعفرآباد، اُستامحمد، صحبت پور اور دیگر نچلے علاقے خطرے کی زد میں ہیں۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ 2 اور 3 ستمبر کو اگر پانی مزید بڑھا تو ہزاروں خاندان متاثر ہوسکتے ہیں۔
خطرات کم کرنے کے لیے صوبائی محکمہ آبپاشی نے 16 فلڈ کنٹرول سینٹرز قائم کردیے ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے بلوچستان نے نصیرآباد میں کیمپ آفس قائم کرکے صورتحال کی براہِ راست نگرانی شروع کردی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں محفوظ مقامات بھی شناخت کرلیے گئے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر لوگوں کو وہاں منتقل کیا جاسکے۔ یہ اقدامات وقتی طور پر اہم ہیں مگر یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان کی بنیادی ڈھانچہ کاری اب بھی قدرتی آفات کے سامنے کمزور ہے۔
2022 کے سیلاب سے ملنے والے سبق
یہ خدشات نئے نہیں ہیں۔ بلوچستان کے 2022 کے سیلاب آج بھی عوام کو یاد ہیں، جب طوفانی بارشوں اور فلیش فلڈز نے بازاروں، گھروں اور سڑکوں کو تباہ کردیا تھا۔ ریلوے لائنیں بہہ گئیں، ایک تاریخی پل گر گیا اور بلوچستان ہفتوں تک ملک کے باقی حصوں سے کٹ گیا۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ اور کوئٹہ اسلام آباد شاہراہ مکمل طور پر بند ہوگئیں، جس نے صوبے کو مکمل طور پر مفلوج کردیا۔ اگر ایک اور بڑا سیلاب آتا ہے تو یہ ان لوگوں کے زخم مزید گہرے کردے گا جو اب تک 2022 کی تباہ کاریوں سے سنبھل نہیں پائے۔
کلائمیٹ چینج فنڈ — مگر مزید اقدامات ناگزیر
یہ خوش آئند ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسی آفات سے بچا جاسکے۔ تاہم، صرف فنڈ قائم کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ڈی ایم اے کو زیادہ فعال، مؤثر اور جدید سہولیات سے لیس کیا جائے تاکہ بروقت اور مؤثر ردعمل دیا جاسکے۔ بلوچستان کو مستقل بنیادوں پر فلڈ مینجمنٹ، مضبوط حفاظتی پشتوں، بہتر نکاسی نظام اور عوامی آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں سیلاب اب کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں رہا، یہ ہر سال کا المیہ بنتا جارہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ کوئٹہ اور اسلام آباد سنجیدگی سے عملی اقدامات کریں۔ عوام مزید ایک تباہ کن سیلاب کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ زندگیوں اور روزگار کا تحفظ ایک قومی ذمہ داری ہے