سٹاف رپورٹر
کوئٹہ بلوچستان اسمبلی کے جاری اجلاس میں ارکان نے بجٹ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے صوبے کو درپیش مسائل اور محرومیوں کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا۔ اجلاس کے دوران تعلیم، صحت، امن و امان اور خواتین کے حقوق جیسے اہم امور زیر بحث آئے، جبکہ بعض ارکان نے بجٹ میں شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے۔
رکن اسمبلی میر عاصم کرد گیلو نے لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کے لیے ناکافی فنڈز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "بلوچستان کی معیشت میں لائیو اسٹاک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس شعبے کو نظر انداز کرنا قابلِ افسوس ہے۔” انہوں نے سولر سسٹمز کی تنصیب، سڑکوں کی تعمیر اور تعلیمی وظائف میں اضافے کا مطالبہ بھی کیا۔ گیلو نے سی پیک پر پیش رفت نہ ہونے، غیر فعال ایئرپورٹ اور بندرگاہوں کی حالت پر بھی تنقید کی۔
دوسری جانب شاہدہ رؤف نے ایران پر اسرائیلی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور امن کے عالمی ایوارڈز کے معیار پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا، "حکومت کی رٹ نظر نہیں آ رہی، امن و امان پر اربوں خرچ ہو رہے ہیں لیکن عوام کو تحفظ حاصل نہیں۔”
زریں مگسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ رواں سال کے تمام فنڈز خرچ ہو چکے ہیں، مگر اب بھی صوبے کو گڈ گورننس، ڈیجیٹل ڈیٹا اور انسانی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے معیاری تعلیم کی فراہمی کو اولین ترجیح قرار دیا۔
ممبر اسمبلی کلثوم نے ایوان میں خواتین کی آواز دبانے پر افسوس کا اظہار کیا اور الزام عائد کیا کہ "بجٹ ارکان کی مشاورت کے بغیر تیار کیا گیا اور ایوان کی خودمختاری کو پامال کیا جا رہا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عوام کی محرومیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
ظفر آغا نے تعلیم و صحت کے شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور مطالبہ کیا کہ بند اسکولوں کو دوبارہ فعال کیا جائے۔ انہوں نے پانی کے ذخیرے کے لیے چیک ڈیمز اور شٹل ٹرین کے نئے روٹس کی تجویز بھی دی۔
اجلاس میں شریک ارکان نے واضح کیا کہ صرف ترقیاتی منصوبے کافی نہیں، بلکہ ان کی بروقت تکمیل، شفاف فنڈنگ اور عام عوام کو براہِ راست فائدہ دینا ضروری ہے۔ مجموعی طور پر یہ اجلاس بلوچستان کے عوامی جذبات کا ترجمان ثابت ہوا، جس نے حکومتی کارکردگی کو آئینے میں دکھایا