کوئٹہ، 6 نومبر 2025 — بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل بینچ نے افغان مہاجر طلبا و طالبات کے خلاف کارروائی سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار سید نذیر آغا ایڈووکیٹ، وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل محمد فرید ڈوگر، ملک نسیم انور کاسی، اور صوبائی حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل ظہور احمد بلوچ پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ افغان مہاجرین کے بچے اور نوجوان بڑی تعداد میں بلوچستان کے تعلیمی اداروں اور جامعات میں زیر تعلیم ہیں جبکہ تعلیمی سال کے اختتام میں چند ماہ باقی ہیں۔ ان میں سے بعض طلبا فارن ریزرو سیٹس پر زیر تعلیم ہیں لیکن انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ امتحانات مکمل ہونے تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ امتحانات کے اختتام تک زیر تعلیم افغان طلبا و طالبات کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے اور انتظامیہ کو ہدایت کی کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25-اے کے تحت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے جس سے عدالت کے ججز نے اتفاق کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئین سب کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔
سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ افغان مہاجرین کی عزتِ نفس مجروح کرنے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں لہٰذا پولیس اور متعلقہ اداروں کو بھی ہدایات جاری کی جائیں۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے آئندہ تاریخ مقرر کردی۔
درخواست گزار نے اپنی آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ افغان بچوں کی بڑی تعداد تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے اور اگر انخلا جبری طور پر کیا گیا تو ان کا تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا۔ مزید کہا گیا کہ جن افغان شہریوں کی شادیاں پاکستانیوں سے ہوچکی ہیں وہ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے تحت شہریت کے حقدار ہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی آئین پاکستان کے آرٹیکلز 2A، 9، 25 اور 25A سے متصادم ہے۔
درخواست میں چیف سیکرٹری بلوچستان، وفاقی سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری سیفران، کمشنر کوئٹہ ڈویژن، آئی جی پولیس بلوچستان اور ڈی جی لیویز فورس بلوچستان کو فریق بنایا گیا ہے۔







