کوئٹہ (5 نومبر 2025): بلوچستان ہائی کورٹ نے ایمل ولی خان کی سینیٹ امیدوار کی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ان کے خلاف دائر آئینی درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا۔
دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس گل حسن ترین شامل تھے، نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ ایمل ولی خان کی نامزدگی اور انتخاب آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق کیا گیا۔
درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ ایمل ولی خان بلوچستان کے ووٹر نہیں، لہٰذا ان کی نامزدگی غیر قانونی ہے۔ تاہم عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ ایمل ولی خان کا قومی شناختی کارڈ بلوچستان کے پتے پر جاری ہوا اور ان کا نام کوئٹہ کے حلقے کی ووٹر فہرست میں شامل ہے۔
عدالت کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 15 مارچ 2024 کو ایمل ولی خان کے ووٹر اندراج کا سرٹیفکیٹ جاری کیا، جبکہ درخواست گزار یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ ووٹر اندراج غیر قانونی تھا۔
عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 26 اور 27 کے تحت کسی شخص کا پتہ اور ووٹر لسٹ میں اندراج اس کی رہائش ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹ میں اندراج کسی شخص کی قانونی رہائش کا ثبوت ہوتا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایمل ولی خان بلوچستان سے سینیٹ الیکشن لڑنے کے اہل ہیں اور ان کا انتخاب مکمل طور پر آئینی و قانونی ہے۔
الیکشن کمیشن نے بھی اپنے مؤقف میں کہا کہ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد اعتراض صرف الیکشن ٹربیونل میں اٹھایا جا سکتا ہے، کیونکہ آئینی درخواست کے ذریعے انتخابی نتائج کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے مزید قرار دیا کہ ایمل ولی خان آئین کے آرٹیکل 62 کے تقاضوں پر پورا اترتے ہیں، جبکہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 110 کے تحت جانچ پڑتال کے بعد منظور کیے گئے تھے۔
فیصلے کا خلاصہ:
ایمل ولی خان کا سینیٹ انتخاب برقرار اور آئینی قرار۔
آئینی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد۔
الیکشن کمیشن نے ووٹر اندراج کو قانونی تسلیم کیا۔
انتخابی تنازعات صرف الیکشن ٹربیونل کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔







