کوئٹہ سیف سٹی منصوبے کے 800 میں سے 600 کیمرے غیر فعال ہونے کا انکشاف — 9 ارب روپے کے اخراجات کے باوجود عوام کو مطلوبہ تحفظ نہ مل سکا۔
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ، محکمہ اطلاعات اور جیل خانہ جات سے متعلق آڈٹ رپورٹس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے 2.28 ارب روپے کے غیر قانونی ٹھیکے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پراجیکٹ کو ایس سی او (SCO) کو دیا گیا جبکہ این آر ٹی سی (NRTC) نے مالی اور تکنیکی بنیادوں پر زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ کمیٹی نے اسے بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ رولز 2014 کی خلاف ورزی قرار دیا۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا کہ ’’اگر 9 ارب روپے کے اخراجات کے باوجود 600 کیمرے بند ہیں تو یہ منصوبہ ناکام ہے، جس سے شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ناقص منصوبہ بندی، بدانتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کے باعث صرف ٹھیکہ داروں کو فائدہ پہنچایا گیا جبکہ عوام کو تحفظ فراہم نہ کیا جا سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئٹہ کے معصوم بچے مصور کے اغوا کا واقعہ پیش آیا تو سیف سٹی کے کیمرے بند تھے، جو اس منصوبے کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
کمیٹی کے رکن محمد خان لہڑی نے کہا کہ ’’1.7 ارب روپے کے منصوبے کو رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چار بار بڑھایا گیا، جو حیران کن اور افسوسناک ہے۔‘‘
ولی محمد نورزئی کا کہنا تھا کہ ’’محکمہ نے دونوں کمپنیوں کے ساتھ اپنی مرضی سے ریٹ طے کیے، جس سے شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔‘‘
غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ ’’یہ اداروں کی نااہلی ہے کہ منصوبہ 1.5 ارب سے بڑھ کر 9 ارب تک جا پہنچا۔‘‘
صفیہ بی بی نے کہا کہ ’’ایک غریب صوبے کے وسائل کا اس طرح ضیاع افسوسناک ہے، اور جواب دہی کے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔‘‘
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی خود منصوبے کا فیلڈ معائنہ کرے گی اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ غیر تسلی بخش رپورٹ کی صورت میں کیس نیب کو بھیجنے کا عندیہ دیا گیا







