نمائندہ خصوصی:
تربت (بلوچستان):
تربت میں منعقد ہونے والا ثقافتی و ادبی فیسٹیول بلوچستان کی تاریخ کا یادگار موقع ثابت ہوا، جہاں صرف تین دنوں میں 60 لاکھ روپے مالیت کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ منتظمین کے مطابق یہ نہ صرف صوبے میں کتابوں کی سب سے بڑی فروخت ہے بلکہ پاکستان کے بڑے ادبی میلوں میں بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
اس فیسٹیول میں ہزاروں طلبہ، اساتذہ، شعرا، ادیب، محققین اور عام شہری شریک ہوئے۔ کتابوں کے اسٹالز پر نوجوانوں کا جمِ غفیر دیکھ کر شرکا نے اسے ایک علمی و ثقافتی احیاء قرار دیا۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے میلوں سے نئی نسل کو اپنی ثقافت اور علم سے جوڑنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: “یہ فیسٹیول اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے نوجوان علم اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں، یہ صوبے کے لیے اُمید اور حوصلے کا پیغام ہے۔”
صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے بھی اس موقع پر کہا کہ ادب اور ثقافت کو فروغ دینا صوبے میں امن اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی اصل طاقت اس کی فکری اور ثقافتی ورثہ ہے، جسے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
طلبہ نے بھی اس میلے کو انتہائی متاثرکن قرار دیا۔ ایک طالب علم نے کہا: “ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تربت میں کتابوں کے اسٹالز پر اتنی بھیڑ ہوگی، یہ ہمیں مزید پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔”
فیسٹیول میں کتابوں کی نمائش، مشاعرے، مکالمے اور ثقافتی پروگرام شامل تھے، خاص طور پر مکران ڈویژن پر فوکس کیا گیا جسے بلوچستان کا فکری مرکز کہا جاتا ہے۔
60 لاکھ روپے کی ریکارڈ کتابوں کی فروخت کے ساتھ، تربت کا یہ ثقافتی و ادبی میلہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے لیے ایک نئی مثال بن گیا ہے







