سٹاف رپورٹر:
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں توانائی محکمے کی سنگین بے ضابطگیاں اور بدانتظامی سامنے آ گئیں۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین اصغر علی ترین نے کی جبکہ کمیٹی ممبران اور اعلیٰ سرکاری افسران بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ مالی سال 2021-22 میں توانائی محکمے کو 10 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز دیے گئے، لیکن صرف 8 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ 2 ارب 31 کروڑ روپے واپس لیپس ہوگئے۔ کمیٹی اراکین نے کہا کہ اتنی بڑی رقم کو استعمال نہ کرنا محکمہ کی ناقص منصوبہ بندی اور غیر ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید یہ انکشاف بھی ہوا کہ سبسڈائزڈ ٹیوب ویل اسکیم کے تحت توانائی محکمے نے کے الیکٹرک کو 10 ارب اور کیسکو کو 30 ارب روپے کی ادائیگیاں صرف اندازوں کی بنیاد پر کیں، میٹر ریڈنگ کیے بغیر۔ کمیٹی نے اس عمل کو کھلی بے ضابطگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے بغیر تصدیق کے خرچ کر دیے گئے۔
اجلاس میں یہ بھی سامنے آیا کہ صوبے کے زمیندار کیسکو کے 500 ارب روپے کے نادہندہ ہیں جبکہ سرکاری ادارے 54 ارب روپے کے واجب الادا ہیں۔ اراکین نے سوال اٹھایا کہ جب صوبے کے زیادہ تر علاقوں میں دن میں صرف چند گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے تو اتنی بھاری بلنگ کیسے ممکن ہے؟
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کیسکو نے بجلی ڈیوٹی کی مد میں 9 ارب 89 کروڑ روپے وصول کیے لیکن صوبائی حکومت کو اس کا حصہ ادا نہیں کیا۔ اسی طرح سروسز پر سیلز ٹیکس کی مد میں بھی 62 کروڑ روپے کی کٹوتی صوبے کو منتقل نہیں کی گئی، جس سے خزانے کو بھاری نقصان ہوا۔
اراکین نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ آئندہ غیر سنجیدگی اور بے ضابطگی برداشت نہیں ہوگی۔ کمیٹی نے سخت احکامات دیے کہ ایک ماہ کے اندر تمام واجبات کی ریکوری یقینی بنائی جائے، بصورت دیگر ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کی صورت میں بلوچستان کے خزانے کو اربوں روپے کے مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔







