بلوچستان میں 6 اگست سے موبائل انٹرنیٹ معطل، لاکھوں متاثر

کوئٹہ: بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات کے باعث 6 اگست سے موبائل انٹرنیٹ سروسز، جن میں تھری جی اور فور جی نیٹ ورک شامل ہیں، معطل ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ضروری آن لائن سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔ حکام نے واضح کیا ہے کہ یہ پابندی 31 اگست تک برقرار رہے گی۔

جاری موبائل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن نے طلبہ، فری لانسرز، چھوٹے کاروباری حضرات، فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز اور گھروں سے کام کرنے والی خواتین کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ حکام کے مطابق اگست کا مہینہ حساس تصور کیا جاتا ہے کیونکہ 11 اگست، 14 اگست (یومِ آزادی) اور 26 اگست جیسے دنوں کے قریب عسکریت پسند حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ برس اس دوران ہونے والے واقعات میں 30 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

بلوچستان میں انٹرنیٹ کی کمزور سہولیات
معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے اور ملک میں سب سے کم انٹرنیٹ کوریج رکھتا ہے۔ اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق صوبے کے 60 فیصد رقبے میں انٹرنیٹ دستیاب ہی نہیں۔ مستونگ اور ڈیرہ بگٹی سمیت بعض اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ کئی برسوں سے مستقل طور پر بند ہے۔

صوبے کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے جس میں سے 85 لاکھ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ صرف موبائل ڈیٹا کے ذریعے ہی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ لینڈ لائن انٹرنیٹ، جیسے پی ٹی سی ایل، صرف بڑے شہروں اور ضلعی ہیڈکوارٹرز تک محدود ہے، جہاں اس کے صارفین کی تعداد تقریباً 70 ہزار ہے۔ 6 اگست سے صرف لینڈ لائن یا کیبل انٹرنیٹ والے لوگ ہی آن لائن رہ پائے ہیں، جبکہ اکثریت مکمل طور پر کٹ چکی ہے۔

روزگار پر سنگین اثرات
بلوچستان میں انٹرنیٹ کی معطلی نے مقامی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ غیر ملکی کلائنٹس کے ساتھ کام کرنے والے فری لانسرز کے پروجیکٹس منسوخ ہو گئے، آن لائن کاروبار رک گئے اور کوئٹہ میں فوڈ ڈیلیوری سروسز بند ہو چکی ہیں۔

کوئٹہ کی فری لانسر شازیہ خان کے مطابق، "زیادہ تر فری لانسرز کا کام بند ہو گیا ہے۔ صرف لینڈ لائن رکھنے والے کچھ لوگ کام جاری رکھ سکتے ہیں، مگر اس کی کوالٹی بھی اچھی نہیں۔ گھروں سے روزی کمانے والی کئی خواتین کی آمدنی مکمل ختم ہو گئی ہے۔”

فوڈ ڈیلیوری رائیڈر عبداللہ نے بتایا کہ اس کے گھر کا مکمل انحصار اسی آمدنی پر ہے۔ "پچھلے ایک ہفتے سے بے روزگار ہوں، سمجھ نہیں آ رہا کرایہ اور روزمرہ اخراجات کیسے پورے کروں گا۔”

فوڈ ڈیلیوری کمپنی کے پروموٹر نصیب اللہ نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد رائیڈرز، جو روزانہ دو سے ڈھائی ہزار روپے کما رہے تھے، اب فارغ بیٹھے ہیں۔ "اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ کمپنی کو کوئٹہ میں آپریشن بند کرنا پڑ سکتا ہے۔”

صوبے کے لاکھوں افراد کے لیے یہ صرف ایک وقتی مشکل نہیں بلکہ ان کے روزگار اور بقا کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

About the Author

Quetta Voice is an English Daily covering all unfolding political, economic and social issues relating to Balochistan, Pakistan's largest province in terms of area. QV's main focus is on stories related to education, promotion of quality education and publishing reports about out of school children in the province. QV has also a vigilant eye on health, climate change and other key sectors.