منان مندوخیل
کوئٹہ– وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کوئٹہ ہائی کورٹ میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی حالیہ صورتحال، ماضی کی تحریکوں، اور ریاستی استحکام پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء برادری نے ملک و قوم کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سرفراز بگٹی نے دہشت گردی کے خلاف ریاست کی کامیابیوں پر بات کرتے ہوئے کہا، "دہشت گرد آج ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، مگر وکلاء کی قربانیوں کی گونج آج بھی زندہ ہے۔”
انہوں نے بلوچستان میں جاری شورش کو جسٹس نواز مری کی شہادت کے بعد ابھرنے والی لہر قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت لاپتہ افراد کا مسئلہ زیر بحث نہیں تھا۔ "یہ بغاوت کسی حقوق کے لیے نہیں، بلکہ علیحدگی کے ایجنڈے پر مبنی ہے،” انہوں نے واضح کیا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ماضی میں دو نظریات کی سیاست ہوتی تھی، لیکن اب قوم کو ایک واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ آئینی جدوجہد ہی اصل راستہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بلوچستان کو ہمیشہ پاکستان کے آئین کے تحت حقوق حاصل ہوئے، جبکہ تشدد نے صرف نقصان پہنچایا۔
افغانستان سے متعلق گفتگو میں سرفراز بگٹی نے کہا کہ بعض انسرجنٹس کو سرحد پار پناہ دی گئی، جس سے امن و امان کی صورتحال متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دشمن عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
خطاب میں سرفراز بگٹی نے زور دیا کہ "پاکستان وہ واحد ملک ہے جو ریاست توڑنے والی آوازوں کو برداشت کرتا رہا ہے، لیکن اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں یا انتشار کے ساتھ۔”
انہوں نے وکلاء برادری کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان بھی کیا جن میں:
خواتین وکلاء کو پنک اسکوٹی کی فراہمی
وکلاء ہاؤسنگ اسکیم کا اجراء
مہلک امراض میں مبتلا وکلاء کے علاج کے اخراجات کی حکومتی کفالت
وکلاء کے لیے خصوصی وین کی فراہمی
اور بلوچستان کے لیے 50 کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ شامل ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ حق اور سچ کا فیصلہ اب وکلاء کے ہاتھ میں ہے، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر بلوچستان کو ایک پرامن اور خوشحال مستقبل کی جانب لے کر جائیں۔