سید محمد یاسین:
بولان میڈیکل کالج کے طلباء نے بلوچستان کے سب سے بڑے طبی تعلیمی ادارے کی مسلسل بندش پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک سخت بیان جاری کیا ہے۔ ان کے مطابق، کالج گزشتہ چھ ماہ سے مکمل طور پر غیر فعال ہے، جو کہ صوبے میں بند پڑے 3,000 سے زائد پرائمری اسکولوں کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
طلباء کا دعویٰ ہے کہ کالج اور اس کے ہاسٹلز کو چھ ماہ قبل ایک معمولی تنازعے کے بعد پولیس نے سرکاری احکامات پر زبردستی سیل کر دیا تھا۔
اس کے بعد سے حکام کی جانب سے ہاسٹلز کی تزئین و آرائش اور الاٹمنٹ کے طریقہ کار کو تدریسی سرگرمیوں کی بحالی میں تاخیر کا جواز بنایا جا رہا ہے۔ اب، بغیر کسی واضح وجہ کے، محکمہ صحت کے حکام اس ادارے کو غیر معینہ مدت کے لیے بند رکھنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
طلباء کا ماننا ہے کہ اس ادارے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جا رہا ہے کیونکہ یہاں دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے بغیر کسی سیاسی سفارش کے طلباء داخلہ لیتے ہیں، جو کہ صوبائی حکومت کے لیے کوئی سیاسی فائدہ نہیں رکھتے۔
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چند ماہ قبل کالج کے وائس پرنسپل کو مبینہ طور پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر (MPO) کے تحت جیل بھیج دیا گیا، ممکنہ طور پر اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں۔
تمام سیاسی جماعتوں کی طویل خاموشی سے تنگ آکر طلباء کا کہنا ہے کہ اب وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا: "ایسا لگتا ہے کہ تعلیم اب ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات یا ذمہ داریوں میں شامل ہی نہیں رہی۔”
اپنے مطالبات منوانے کے لیے طلباء نے چار مرحلوں پر مشتمل احتجاجی مہم کا اعلان کیا ہے:
- سوشل میڈیا پر ادارے کی بندش اور فیسوں کے خلاف مہم کا آغاز۔
- تمام اضلاع میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے۔
- کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج کے باہر دھرنا اور خود سے تدریسی سرگرمیوں کا آغاز۔
- اگر کالج اور ہاسٹلز کو فوری طور پر دوبارہ نہیں کھولا گیا تو طلباء والدین، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کے ہمراہ صوبے بھر میں قومی شاہراہیں بند کریں گے۔
طلباء نے تمام اضلاع کے ساتھی طلباء سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اپنے پریس کلبوں کے باہر مظاہروں کا شیڈول بنائیں اور اس میں شامل ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ "نسلی، سیاسی یا تنظیمی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس بحران کو مشترکہ مسئلہ سمجھا جائے اور سب مل کر اس میں حصہ لیں۔”
سیاسی جماعتوں، طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کے گروہوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔